پولیس کی لاٹھی چارج اور بروقت کاروائی سے حالات پر امن رات دیر گئے ایس پی پریس کانفرنس
نارائن پیٹ 19/ستمبر(سماجی خبریں):نارائن پیٹ میں جھنڈے لگانے کو لیکر اس وقت کشیدگی دیکھنے میں ہے جب اکثرتی طبقے کی جانب سے ساورکر چوراہا پر جھنڈے لگانے کو لیکر اعتراض کیا جانے لگا۔ ساتھ ہی لگائے گئے جھنڈے کو اکھاڈ پینکھا گیا۔ جس پر دیکھتے ہی دیکھتے دونوں جانب افراد کی کثیر تعداد جمع ہوگئی۔
پولیس کی جانب سے بیچ بچاؤ کی کوشش کے باوجود دونوں جانب سے پتھراؤ شروع ہونے لگا۔ جس کے جواب میں پولیس نے لاٹھی چارج کرتے ہوئے دونوں جانب کے لوگوں کو منتشر کیا گیا۔ رات 8 بجے سے شروع ہونے والے اس تنازعہ نے رات 9 بجے شدت اختیار کی جس کے باعث پولیس انتظامیہ کو بھی حالات کو کنٹرول کرنے میں مشکلات کا سامنا رہا۔
پولیس کی جانب سے بر وقت انتظامات نہ کرنے کے سوال پر پولیس انتظامیہ نے بتایا کہ ضلع پولیس کی بڑی تکڑی مکتھل میں گنیش جلوس پر امن انعقاد میں انتظامات میں مصروف تھے۔ پر اطلاع موصول ہونے اولیں ساعتوں میں تین تا چار پیکٹس کو روانا کیا گیا۔ جو مقام پر پہنچنے پر پٹرولنگ کرتے ہوئے عوام کو منتشر کیا گیا۔
رات دیر ضلع ایس پی مسٹر یوگیش گوتم نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے عوام سے اپیل کی کہ وہ افواہوں پر دیہان نہ دیں اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے بر وقت اطلاع پولیس انتظامیہ کو دیں۔
ایک سوال پر کہ کیا یہ واقع منصوبہ بند تھا۔ ایس پی نے کہا کہ یہ واقع منصوبہ بند نہیں تھا بلکہ بروقت دو گروہوں کے درمیان جھنڈوں کو لیکر بروقت ہونے والا واقع تھا۔
میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلوس کے مطلق ایس پی نے بتایا کہ چونکہ میلاد جلوس کو پہلے ہی طئے شدہ پروگرام ہے ایسے میں پولیس کی سخت نگرانی میں جلوس کا انعقاد عمل میں لایا جائیگا۔
جلوس کے دوران کسی بھی ناخوشگوار واقعات کو روکنے کیلئے 250 سے زائد پولیس جوانوں کی خدمات حاصل کی جائیگی۔ جنہیں حساس مقامات پر تعینات کرتے ہوئے نگرانی کا جائیگی۔
مزید خبروں کیلئے لنک پر کلک کریں:
پولیس کی سخت نگرانی میں روایتی جوش و خروش کے ساتھ نارائن پیٹ میں پر امن میلاد جلوس کا انعقاد،
پراجہ پالانا کے نام سے یومِ سقوط حیدرآباد کا انعقاد. جلع کلکٹر دفتر پر تلنگانہ پولیس ہاؤسنگ کارپوریشن کے چیرپرسن مسٹر گروناتھ ریڈی نے پرچم لہرایا.
یوم سقوط حیدرآباد کے موقع پر ایس پی مسٹڑ یوگیش گوتم نے ضلع پولیس دفتر میں قومی پرچم لہرایا.
مودی حکومت میں دستورِ ہند پر اٹھتے ہوئے سوالات. تحریر صوفی محمد ظہیرالدین
[…] […]
[…] […]