23/12/2024

مودی حکومت میں دستورِ ہند پر اٹھتے ہوئے سوالات

11 4
Read Time:8 Minute, 21 Second

قلمکار: صوفی محمد ظہیرالدین، نارائن پیٹ
9440832742
[email protected]

ملک کے موجودہ حالات کو سمجھنے کیلئے تین پہلوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے.

ہندوستان کثیر المذاہب ملک ہے .جہاں مختلف زبانیں، مذاہب، ذات، برادریاں اور ریاستیں پائی جاتی ہیں. 1947 میں آزادی کے بعد جب ملک کے دستورکی تدوین کا موقع آیا تب ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی صدارت میں دستورکمیٹی کی تشکیل عمل میں لائی گئی، تاکہ وہ ملک کے تمام شہریوں سے بات کرے، ان سے مشہورے طلب کریں، مختلف مملک کا دورہ کرتے ہوئے وہاں پر موجود دستوروں کا تفصیلی جائزہ لیں اور ملک کیلئے مناسب دستور کی تدوین عمل میں لائی جا سکے.
26 جنوری 1950 میں دستور کا اعلان کیا گیا، ہندوستان کو جمہوری ملک اور دستور کو سیکولرقرار دیا گیا. ہر فرد کو آزادی، مساوات، انصاف ملے اسکو یقینی بنانے کیلئےمختلف اداروں اور اداروں کی نگرانی کیلئے عدلیہ کا قیام عمل میں لایا گیا. اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ عدلیہ آزاد ہو، سیاسی، سماجی، اور مذہبی دباؤ سے بالاتر غیر جانب دار ، بلا خوف فیصلہ لینے کے اختیارات دئے گئے. تاکہ کوئی امیر کسی غریب کا حق نہ مار سکے، پیسوں کے بل پر امیر کو اختیارات حاصل نہ ہو کہ وہ غریب کا استحصال کرے. کمزور طبقہ کو بھی وہی حقوق ملے جو اعلیٰ طبقہ کو حاصل ہیں، بلکہ کمزوروں کو طاقتور کے مقابلہ برابر حق ملے اسکے لئے تحفظات کے نظام کو قائم کیا گیا.
ایک وقت وہ بھی آیا جب ملک میں اندرا گاندھی نے ایمرجنسی لاگائی تب عوام نے اندراگاندھی کا بھر پور مقابلہ کیا اور انہیں اپنی غلطی کا احساس دلایا اور انہیں وزیر اعظم کی کرسی کے اتار کر ہی دم لیا. ملک نے اندرا گاندھی کو بتایا کہ پہلے کی طرح ملک کسی بھی غلامی کو منظور نہیں کریگا. دستور کی اجارہ داری سب پر لازم ہوگی،
ایسا نہیں ہے کہ دستور میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی بلکہ اس میں کئی بار ترمیم کی گئی اور حالات کی مناسبت سے اس میں نئے قوانین جوڈے گئے جبکہ کئی قوانین میں ترمیم بھی کی گئی. تعلیم کا حق، جانکاری حاصل کرنے کا حق، غذا کا حق ایسے قوانین ہیں جن سے حکومت پر لازم ہے کہ ان پر عمل کرتے ہوئے تمام شہریوں کو مساوی حقوق فراہم کریں. اسی کا نتیجہ ہے کہ آج حکومت ہر فرد کو غذاء ملےاس کیلئے 80 کروڈ لوگوں میں مفت راشن فراہم کرنے کیلئے مجبور ہے.
دوسرا پہلو:
دستور کی تمہید جس میں دستور کی اصل حیثیت کو بیان کیا گیا کہ "ہم، ہندوستان کے لوگوں نے، ہندوستان کو ایک خودمختار، سوشلسٹ، سیکولر، ڈیموکریٹک، ریپبلک، بنانے اور اس کے تمام شہریوں کے حقوق کو محفوظ بنانے کا پختہ عزم کیا ہے” اور یہ ہی وہ مقام ہے جس کی تبدیلی کیلئے آر ایس ایس نے ہر ممکن کوشش کرتی رہی ہے. جمہوریت کے پاسداری کیلئے چار ستون بنائے گئے، جسمیں مقننہ، انتظامیہ، عدلیہ، اور صحافت شامل ہیں، آر ایس ایس بڑی چالاکی سے جمہوریت کے ان چاروں ستونوں پر ایک ایک کرکے حملہ کیا ہے.

10005198057780532188324681220 مودی حکومت میں دستورِ ہند پر اٹھتے ہوئے سوالات
مقننہ:
سب سے پہلے آر ایس ایس نے مقننہ پر اختیارات حاصل کئے اور مقننہ کے دونوں ایوانوں( پارلیمنٹ اور راجیہ سبھا) میں اپنے عوامی نمائندوں کو جمع کرنا شروع کیا. پارلیمنٹ میں ایک طرفہ اختیارات حاصل کرنے کیلئے 85 سالہ طویل جوجہد کی اور 2014 میں ایک طرفہ اکثریت کے ساتھ پارلیمنٹ کو اپنے اختیار میں کیا. جہاں پر اکثریت کے دم پر کئی ایسے قوانین منظور کروائے گئے جس سے فرد کی آزادی، مساوات اور پرسنل لا میں مداخلت کی گئی. فرد کی آزادی کو نشانہ بنانے کیلئے”شہریت (ترمیمی) ایکٹ، 2019″ کو منظور کروایا گیا . جس میں مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کی بات کی گئی، جبکہ اس کے نام پر مسلمانوں میں خوف پیدا کرنے کیلئے نیشنل رجسٹر آف سٹیزن( این آر سی) اور نیشنل پاپولیشن رجسٹر( این پی آر) کو جوڈ کر مسلمانوں سے ان کے شہریت ثابت کرنے کو کہا گیا.
انتظامیہ:
اکزیکیٹو کے اختیارات کو کم کرنے اور انہیں اپوزیشن جماعتوں کے خلاف استعمال کرنے کا دور بھی 2014 سے عروج پر رہا . منتخبہ حکومتوں کو گرانے، منتخب حکومتوں کے انتظامی عمور میں مداخلت اور منتخب وزرا اعلیٰ کو جیل بھیجنے کیلئےایجنسیوں کا استعمال کوئی چھپی ہوئی نہیں رہی. سماج کے ذہین طبقہ کو زیر کرنے کیلئے انہیں مختلف القاب دئے گئے. اربن نیکسل، ٹکڑے ٹکڑے گینگ، جے این یو گینگ، ایوارڈ واپسی گینگ جیسے القاب سے نواز کرسماج میں انکی اہمیت کو کم کرنے اور انکی آواز دبانے کی کوشش کی گئی. مسلم دشمنی کو فروغ دینے کیلئے مسلمانوں کے ہر عمل کو جہاد سے تشبیح دے کر انہیں سماج سے ا لگ کرنے کیلئے منعظم حکمت عملی اختیار کی گئی. لو جہاد، یو پی ایس سی جہاد، کرونا جہاد، ووٹ جہاد تک کا نعرہ مسلم دشمنی میں ملک کے سامنے کوئی اور نہیں بلکہ ملک کے وزیراعظم نے پیش کیا.
صحافت:
مقننہ کے ذریعہ بنائے جانے والے قوانین پر عوام میں شعور پیدا کرنا ہو یا پھر انتظامیہ کی جانب سے کئے جانے والے ظلم کے خلاف عوام کی آواز بلند کرنے، کمزور کی آواز کع طاقت دینےاور ظالم کو دینا کے سامنے بے نقاب کرنا ہو، سرکار کی جانب سے اختیار کئے جانے والے ہر اسکیم کی عمل آواری میں بد عنوانیوں کو اُجاگر کرنا ہو ، تمام عمور میں صحافت (میڈیا) اہم کردار ادا کرتا ہے. مودی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد جو پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ اس نے اپنے ذر خریدے غلام میڈیا میں جمع کیا، جو لوگ عوام کے مسائل اور سرکار کی خامیوں کے بارے میں بات کرتے انہیں اداروں سے نکالا جانے لگا. ایسے ادارے جو صحافتی میدان میں بناء ڈرے کام کر رہے تھیں ان اداروں کو اپنے ساتھوں کے ذریعہ خرید لیا گیا اور عوام کو دن رات ہندو مسلم کے درمیان نفرت پیدا کرنے اور خصوصامسلمانوں کے خلاف ماحول بنایا گیا. جس میڈیا کا کام عوام کو حکومت کی ناکامیوں کے بارے میں بتانا تھا وہ میڈیا دن رات مودی مودی کرنے لگا.
عدلیہ :
دستور کی تدوین کرنے والوں نے دستور میں مذہبی آزادی کو ملحوض رکھتے ہوئے پرسنل لاء کا قیام عمل میں لایااور عوام کو یہ آزادی فراہم کی گئی کہ وہ شادی، طلاق، وراثت، گود لینے اور دیکھ بھال کے معاملات میں ان کے مذہب یا برادری کی بنیاد پر عمل کر سکیں. دستوری کمیٹی نے اس وقت ان معاملات میں یونیفارم سیول کورڈ کی مخالفت کی اور عوام کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ ان معاملات میں مذہب کی پاسداری کریں. یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دستور کی پاسداری اور اس کے خلاف ترتیب دیئے جا نےوالے معاملات چاہے وہ پارلیمنٹ کے ذریعہ قانون کی تدوین ہی کیوں نہ ہو اس کو دستور کےتحت جانچنا اور اس کے مطابق فیصلہ دینا ، حتہ کے دستور کے خلاف بنائے گئے قوانین میں جمہوری اصولوں کی پاسداری ، فرد کی آزادی کے ساتھ کھلواڈ نہ ہو اس کا خیال رکھنا اور قانون کی تشکیل میں دستور کی خلاف ورزی نہ ہو اسکو جانچنے کا کا م عدلیہ کا ہے.
ایسے میں حالیہ عرصہ میں پرسنل لاپر سپریم کورٹ کے فیصلوں میں دو فیصلوں پر غور کیا جانا چاہئے .
تین طلاق: 22اگست 2017 سپریم کورٹ کے 5 ججوں والی بنچ نے3 ججوں کی ااکثریت سے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ایک نشست میں تین طلاق جیسے طلاقِ بدعا بھی کہا گیا ہے اس پر ملک میں امتناع عائد کیا جا رہا ہے. اور یہ جواز دیا گیا کہ اس عمل سے سیکولرازم، انسانی حقوق و حقوق نسواں اور جنسی مساوات کی نفی قرار دیتے ہوئے حکومت کو قانوں بنانے کو کہا گیا.

تین طلاق پر فیصلہ کی کاپی

بابری مسجد کیس : 9 نومبر 2019 سپریم کورٹ کی پانچ ججوں والی بنچ نے یہ کہ کر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ” عدالت نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مسلم کمیونٹی کو ان کی 450 سال پرانی مسجد سے غلط طور پر محروم کر دیا گیا، لیکن اس نے خصوصی عنوان اور ملکیت کے ان کے دعوے کو مسترد کر دیا۔” (خبر- دی ہندو- 10نومبر2019)

بابری مسجد کیس پر فیصلہ کی مکمل کاپی

تین طلاق پر اس لئے امتناع عائد کی گئی کہ یہ سیکولرازم، انسانی حقوق و حقوقِ نسواں اور جنسی مساوات کی نفی کرتا ہے، اور بابری مسجد کیس میں مسلمانوں کے حق کو تسلیم کیا گیا پر مسلمانوں کے حق میں فیصلہ یہ کہہ کر نہیں دیا گیا کہ اس سے کروڑوں کی مذہبی جذبات جڈے ہیں اس لئے مسلمانوں کے حق میں نہ دیکر تین حصوں میں تقسیم کیا گیا.
تیسرا پہلو:
دوسری طرف 2024 انتخابات کی خصوصیت یہ رہی ہے کہ پورا پوزیشن ملک کی سلامتی، دستور کا تحفظ، فرد کی آزادی، حکومت کی عوام مخالف پالیسیوں اور کارپوریت کے ساتھ حکومت کی دوستی جیسے ایشوز کے ساتھ انتخابی میدان میں تھا. جبکہ سابقہ دس سال سے حکومت میں رہی بی جے پی نے اس انتخابات کو 400 پار ،رام مندر، بھیسوں ، منگلسوتر، ووٹ جہاد جیسے ایشوز کے ساتھ انتخابی میدان میں رہی. اس انتخابات میں ایک اور اہم ایشو جس کو اپوزیشن جماعتوں نے بار بار اٹھایا وہ الیکشن کمیشن کی کارکردگی تھی. الیکشن کمیشن پر انتخابات کے بعد بھی کئی سوال اٹھتے رہے ہیں جس کا جواب دینے سے الیکشن کمیشن بچتا رہا ہے.
آخر میں یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ فرد کی آزادی کے تحفظ کیلئے سب سے اُپر سپریم کورٹ اور سپریم کورٹ کے نگران چیف جسٹس آف انڈیا ہوتے ہیں. ایسے میں چیف جسٹس آف انڈیا اپنے گھر پریا پھر تنہائی میں کس عقیدے کو اختیار کرتے ہیں اس پر کسی کو بولنے کا اختیار نہیں، پر جب سماجی زندگی میں وہ ہوں تو انہیں بھی چند پرنسپل کا خیال رکھنا ہوتا ہے . ایسے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے گھر جب ملک کے وزیر اعظم پہنچتے ، ملک کے سب سے اعلیٰ عہدوں پر فائز دو افراد جب پوجا کرتے ہیں، اس کا ویڈیو بناتے ہیں، اور ایسے سماجی سائیٹ میں اپنے پیج کے ذریعہ پیش کرتے ہیں تب کیا کہا جائے.

رہبر بھی وہی، رہزن بھی وہی
ظالم بھی وہی، حاکم بھی وہی
میں اپنی فریاد لیکر کہا جاؤں
قاتل بھی وہی، منصف بھی وہی. ظہیر صوفی….

ajax-loader-2x مودی حکومت میں دستورِ ہند پر اٹھتے ہوئے سوالات

About Post Author

samajikhabren

As a journalist, I have always been driven to uncover the truth and share the stories that need to be told. With 14 years of experience in the field, I have honed my skills in research, interviewing, and storytelling to bring you the most accurate and compelling news. if you have some thing to tell me. share your experience on [email protected]
happy مودی حکومت میں دستورِ ہند پر اٹھتے ہوئے سوالات
Happy
0 %
sad مودی حکومت میں دستورِ ہند پر اٹھتے ہوئے سوالات
Sad
100 %
excited مودی حکومت میں دستورِ ہند پر اٹھتے ہوئے سوالات
Excited
0 %
sleepy مودی حکومت میں دستورِ ہند پر اٹھتے ہوئے سوالات
Sleepy
0 %
angry مودی حکومت میں دستورِ ہند پر اٹھتے ہوئے سوالات
Angry
0 %
surprise مودی حکومت میں دستورِ ہند پر اٹھتے ہوئے سوالات
Surprise
0 %

متعلقہ خبریں

Average Rating

5 Star
0%
4 Star
0%
3 Star
0%
2 Star
0%
1 Star
0%

2 thoughts on “مودی حکومت میں دستورِ ہند پر اٹھتے ہوئے سوالات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے