تحریر: ابوالاعلی سید سبحانی
[email protected]
مولانا سید ابوالاعلی مودودی علیہ الرحمہ کو اللہ رب العزت نے بے پناہ حکمت وبصیرت سے نوازا تھا۔ مولانا کی تحریروں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ کسی بھی مسئلہ پر پہلے آپ قرآن وسنت کی تعلیمات کا گہرا تجزیہ کرتے ہیں، دین کے داعیانہ کردار اور شریعت کے مصلحانہ مزاج کو پیش نظر رکھتے ہیں، اور پھر کسی بھی مسئلہ پر اپنی رائے دینے سے پہلے مالہ وماعلیہ کا خوب اچھی طرح سے تجزیہ کرلیتے ہیں، چنانچہ آپ کی فکر میں مضبوطی بھی نظر آتی ہے اور کلیئرٹی بھی، داعیانہ کردار بھی اور حکمت وبصیرت بھی۔
مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے 1942 میں میلاد النبی کے حوالہ سے دو خطاب کیے تھے، پہلا خطاب آل انڈیا ریڈیو لاہور سے کیا تھا اور دوسرا خطاب دارالاسلام پٹھان کوٹ میں خطبہ جمعہ کے طور پر پیش کیا تھا۔ یہ دونوں خطاب بعد میں مضامین کی شکل میں ماہنامہ ترجمان القرآن اپریل 1942اور اپریل 1943 میں شائع ہوئے، یہ مضامین اپنے موضوع پر بہت ہی زبردست اور واضح رہنمائی پیش کرتے ہیں۔
مولانا مودودی علیہ الرحمہ عید میلاد النبی کو نہ تو بدعت قرار دیتے تھے اور نہ ہی اسے کوئی معیوب سرگرمی سمجھتے تھے، مولانا مودودی اس کو ایک جائز دینی سرگرمی اور ایک تاریخی دن مانتے تھے، چنانچہ بارہ ربیع الاول کے دن کو غیرمعمولی طور پر اہم قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
“آج اس عظیم الشان انسان کا جنم دن ہے، جو زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کے لیے رحمت بن کر آیا تھا اور وہ اصول اپنے ساتھ لایا تھا، جن کی پیروی میں ہر فرد انسانی، ہر قوم وملک اور تمام نوع انسان کے لیے یکساں فلاح اور سلامتی ہے۔ یہ دن اگرچہ ہر سال آتا ہے، مگر اب کی سال یہ ایسے نازک موقع پر آیا ہے، جب کہ زمین کے باشندے ہمیشہ سے بڑھ کر اس دانائے کامل کی رہنمائی کے محتاج ہیں”۔ (ترجمان القرآن، اپریل 1942)
دوسرے مضمون میں اس بات کو اور واضح لفظوں میں لکھتے ہیں:
"آج کا دن دنیا کے لیے ایک بڑی برکت کا دن ہے، کیوں کہ یہی تاریخ تھی جس میں ساری دنیا کے رہنما حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے۔ اگر چہ شریعت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کےیوم پیدایش کو عید قرار نہیں دیا گیا ہے اور نہ اس کے لیے کسی قسم کے مراسم مقرر کیے گئے ہیں، لیکن اگر مسلمان یہ سمجھ کر کہ یہ خدا کے سب سے بڑے نبی اور دنیا کے سب سے بڑے ہادی کی پیدایش کا دن ہے اور یہ وہ دن ہے جس میں انسان کے لیے خدا کی سب سے بڑی نعمت ظہور میں آئی۔ اس کو عید کی طرح سمجھیں تو کچھ بے جانہیں ہے۔” (ترجمان القرآن، اپریل1943)
مولانا مودودی کو اس بات پر بالکل بھی اعتراض نہیں تھا کہ بارہ ربیع الاول کے دن کو یادگار قرار دیا جائے یا اس دن کو عید میلاد النبی کے طور پر منایا جائے، مولانا مودودی کا کہنا صرف یہ تھا کہ اس موقع پر ہمارے جشن منانے کا انداز ہمارے دین اور ایمان کے شایانِ شان ہونا چاہیے، مولانا اس موقع پر فضول ایکٹوٹیز اور غیر سنجیدہ ہنگامہ آرائی کو غلط قرار دیتے تھے۔چنانچہ اس سلسلہ میں لکھتے ہیں:
“البتہ اس عید کے منانے کی یہ صورت نہیں کہ خوب کھاؤ پیو، چراغاں کرو، جلوس اور جھنڈے نکالو اور محض اپنی دل لگی کے لیے فضول نمایشی کام کرنے لگو۔ ایسا کرو گے تو تم میں اور جاہل قوموں میں کوئی فرق نہ رہے گا۔ جاہل قومیں بھی اپنی تاریخ کے بڑے بڑے واقعات کی یاد میلوں ٹھیلوں اور جلوسوں سے مناتی ہیں۔ اگر تم نے بھی ان کے میلوں اور تیوہاروں کی نقل اتاری تو جیسے وہ ہیں ویسے ہی تم بھی بن کررہ جاؤ گے۔ اسلام نے تو یادگار منانے کے لیے نیا ہی ڈھنگ نکالا ہے۔ سب سے بڑی یاد گار حضرت ابراہیم کی قربانی ہے۔ جسے منانے کے لیے اللہ تعالی نے عیدالاضحی کی نماز اور قربانی اور حج وطواف کا طریقہ مقرر کیا ہے۔ اس پر تم غور کرو تو اندازہ کر سکتے ہو کہ مسلمان کو اپنی تاریخ کے بڑے بڑے واقعات کی یاد کس طرح منانی چاہیے۔” (ایضاً)
مزید لکھتے ہیں:
“تم کو سوچنا چاہیے کہ بارہ ربیع الاول کی تاریخ کس لحاظ سے تمہارے لیے اہمیت رکھتی ہے۔ اس لحاظ سے نہیں کہ عرب کے ایک شخص کے گھر میں آج ایک بچہ پیدا ہوا تھا، بلکہ اس لحاظ سے کہ آج اس پیغمبر اعظم کو خدا نے زمین پر بھیجا جس کے ذریعے سے انسان کو خدا کی معرفت حاصل ہوئی، جس کی بدولت انسان نے حقیقت میں انسان بننا سیکھا، جس کی ذات تمام جہان کے لیے خدا کی رحمت تھی اور جس نے روئے زمین پر ایمان اور عمل صالح کا نور پھیلایا۔ پس جب اس تاریخ کی اہمیت اس لحاظ سے ہے تو اس کی یاد گار بھی اس طرح منانی چاہیے کہ آج کے روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور دنوں سے زیادہ پھیلاؤ۔ آپ کے اخلاق اور آپ کی ہدایات سے سبق حاصل کرو اور کم از کم آپ کی تعلیم کا اتنا چرچا تو کرو کہ سال بھر تک اس کا اثر باقی رہے۔ اس طرح یادگار مناؤ گے تو حقیقت میں یہ ثابت ہوگا کہ تم یوم میلادالنبی کو سچے دل سے عید سمجھتے ہو اور اگر صرف کھاپی کر اور دل لگیاں ہی کر کے رہ گئے تو یہ مسلمانوں کی سی عید نہ ہوگی، بلکہ جاہلوں کی سی عید ہوگی، جس کی کوئی وقعت نہیں۔” (ایضاً)
مولانا مودودی علیہ الرحمہ عید میلاد النبی کو ملت کے لیے احتساب اور جائزہ کے ایک اہم موقع کے طور پر پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“بھائیو! عید میلاد النبی آپ مناتے ہیں، بڑی خوشی کی بات ہے، مگر صرف اتنا عرض کروں گا کہ اپنے سردار کے دربار میں حاضر ہوتے وقت ذرا یہ بھی سوچ لیا کیجیے کہ کیا منھ لے کر ہم اس روح پاک کا سامنا کررہے ہیں۔ ایک خادم سے قصور ہوجائے تو وہ اپنے صاحب کے سامنے جاتا ہوا ڈرتا ہے اور منھ چھپاتا پھرتا ہے۔ پھر کیا منھ لے کر ان کے سامنے جائیں جن کے ایک دو نہیں، خدا جانے کتنے فرمانوں کی روز ہم خلاف ورزی کرتے ہیں”۔(ایضاً)
اللہ کی رحمت ہو سیدی مودودی پر۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودی علیہ الرحمہ کے یہ دونوں مضامین اپنے موضوع پر بہت ہی معتدل اور متوازن رہنمائی پیش کرتے ہیں۔
یہ دونوں مضامین “میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم” کے نام سے کتابچہ کی شکل میں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہورہے ہیں، موضوع سے دلچسپی رکھنے والے افراد کو اس کتابچہ کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔
خبروں کیلئے لنک پر کلک کریں:
بنگلہ دیش، اقلیتوں کے تحفظ میں مساجد کا کردار
سوشل میڈیا پر امن میں خلل ڈالنے والے پوسٹ پر سخت کاروائی ہوگی. ایس پی یوگیش گوتم